کھٹمل کتنی بڑی ’ مصیبت‘ ہیں، اس کا اندازہ انھی کو ہوسکتا ہے جنھیں اس مصیبت کا سامنا ہے یا جو سامنا کرچکے ہیں۔ چادر اور لحاف اوڑھ کر یا مچھردانی لگا کر مچھروں سے تو بچا جاسکتا ہے مگر ان ننھے حشرات کے آگے یہ چیزیں بھی غیرمؤثر ٹھہرتی ہیں۔ اور تو اور کھٹمل مار زہر بھی ان کا مکمل خاتمہ ناکام رہتے ہیں۔ حشرات کُش اور کھٹمل مار کیمیکلز کا چھڑکاؤ کرنے پر ان سے عارضی اور جزوی طور پر نجات ملتی ہے۔ چند روز کے بعد ان کی ’ کارروائی‘ پھر شروع ہوجاتی ہے۔
سائنس داں برادری بھی کھٹملوں کی دسترس سے دورنہیں۔ اسی لیے سائنس داں ان حشرات سے نجات پانے کا مؤثر طریقہ ڈھونڈنے کی تگ و دو کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں فلوریڈا یونی ورسٹی کے ماہرین نے اہم پیش رفت کی ہے۔ جی نہیں ! آپ غلط سمجھے۔۔۔۔۔ انھوں نے کھٹملوں کا خاتمہ کرنے والی دیرپا اثرات کی حامل،انقلابی دوا ایجاد نہیں کی۔ اس کے برعکس انھوں نے یہ پتا چلالیا ہے کہ ان حشرات کو کون سے رنگوں سے ’ الرجی‘ ہے۔
دوران تجربات محققین نے رنگین کاغذوں سے چھوٹے چھوٹے خیمے بنائے اور انھیں پیٹری ڈش ( تجربات میں استعمال ہونے والی شفاف ڈش) میں رکھ دیا۔ بعدازاں انھوں نے ایک کھٹمل کو پیٹری ڈش میں چھوڑ دیا اور مشاہدہ کرتے رہے کہ وہ کس رنگ کے خیمے کا رُخ کرتا ہے اور کس رنگ سے دُور بھاگتا ہے۔ یہی تجربہ باری باری، کھٹملوں کے گروپ، نر اور مادہ کھٹمل، بھُوکے اور ’ شکم سیر‘ کھٹملوں کے ساتھ دہرایا گیا۔ ہر بار ایک ہی نتیجہ سامنے آیا۔ پیٹری ڈش میں چھوڑے جانے کے چند ہی منٹ بعد کھٹمل سبز اور زرد رنگ کے خیموں سے بچتے ہوئے سرخ یا سیاہ رنگ کے خیمے میں جا گھسے۔
You must be logged in to post a comment.