Home / Gossip / ’میں ۔9۔ سال کی تھی تو میری ماں نے مجھے بیچنا شروع کردیا، وہ مجھے روز اپنی پسند کے ۔15۔ مردوں کے پاس لے جاتی میرے بھائیوں نے بھی میری..

’میں ۔9۔ سال کی تھی تو میری ماں نے مجھے بیچنا شروع کردیا، وہ مجھے روز اپنی پسند کے ۔15۔ مردوں کے پاس لے جاتی میرے بھائیوں نے بھی میری..

ماں باپ اپنی کمسن اولاد کے لئے خدا کے بعد سب سے بڑا سہارا ہوتے ہیں، لیکن جب یہ سہارا ہی ان کا دشمن بن جائے تو کون انہیں تحفظ دے سکتا ہے۔ کمسنی میں جسم فروشی کے دھندے میں جھونک دی جانے والی ایرانی لڑکی کی کہانی بھی ایک ایسی ہی مثال ہے، جسے اپنی ہی ماں نے بیچ ڈالا تو پھر کسی کو بھی اس پر رحم نہ آیا۔۔جاری ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی دارالحکومت میں لاوارث خواتین کے لئے قائم کئے گئے.

ایک مرکز میں قیام پذیر اس بدنصیب لڑکی کا نام لیلیٰ ہے۔ اس کی زندگی غم و الم کی ایسی داستان ہے کہ جسے سننے والا کوئی بھی شخص اپنے آنسوﺅں پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ بائیس سالہ لیلیٰ نے اپنی بدنصیبی کا احوال خود بیان کرتے ہوئے بتایا ”میں 9 سال کی تھی جب میری ماں نے مجھے بیچنا شروع کردیا۔ مجھے اس وقت معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا تھا۔ میری ماں مجھے یہ کہہ کر باہر لیجاتی تھی۔جاری ہے۔ کہ ہم کھلونے اور چاکلیٹ خریدنے جارہے ہیں، لیکن درحقیقت مجھے ان گاہکوں کے پاس لیجاتی تھی جو مجھے اپنی ہوس کا نشانہ تھے۔مجھے بیچ کر میرے گھر والوں کو رقم حاصل ہوتی تھی جو ان کی کمائی کا واحد ذریعہ بن چکا تھا۔ اس رقم کا بڑا حصہ منشیات کی خریداری پر صرف ہوجاتا تھا۔ میں اس ننھی عمر میں اپنا جسم بیچ کر اپنے والد کے لئے نشے کا بندوبست کررہی تھی۔ میرے ساتھ صرف والدین نے ظلم نہیں کیا بلکہ بھائیوں نے بھی درندگی کی۔ پھر جب میری شادی ہوئی تو میرے شوہر نے بھی مجھے بیچنا شروع کردیا۔

ہر رات مجھے تقریباً 15 لوگ ہوس کا نشانہ بناتے تھے۔ ایک روز پولیس نے چھاپہ مارا اور سب کو گرفتار کرلیا ، جن میں مَیں بھی شامل تھی۔ عدالت میں مقدمہ چلا تو میرے شوہر کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس مقدمے کے دوران میرے بھائیوں نے بھی میری عصمت دری کے جرم کا انکشاف کیا ،۔جاری ہے۔ جس پر انہیں کوڑوں کی سزا سنائی گئی، لیکن مجھے شریک جرم قرار دے کر موت کی سزا سنائی گئی۔ بھلا ہو انسانی حقوق کی تنظیموں کا جنہوں نے میرے حق میں آواز اٹھائی اور عدالت نے میرے کیس پر نظر ثانی کی۔ آج میں ایک خصوصی مرکز میں مقیم ہوں جہاں زندگی میں پہلی بار مجھے تحفظ اور عزت کا احساس ہوا ہے۔ میں جب یہاں آئی تو ان پڑھ تھی اور اب میں تعلیم بھی حاصل کررہی ہوں۔ میں اب نئی زندگی کا خواب دیکھ رہی ہوں، لیکن نہیں جانتی کہ کبھی اس خواب کی تعبیر پا سکوں گی