Home / News / Our lawmakers have no time to legislate, Chief Justice

Our lawmakers have no time to legislate, Chief Justice

کوئٹہ: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بنیادی حقوق کاحل ہماری اولین ترجیح ہے لیکن ہمارے پاس قانون سازی کااختیار نہیں ہے اور جس کے پاس اختیار ہے انہیں وقت نہیں۔

کوئٹہ میں وکلا برادری سے خطاب کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات بہت زیادہ ہیں، 30،30سال سے کیس عدالتوں میں پڑے ہیں، عدالتوں میں پیش ہونے والا سائل ہر تاریخ پر جیتا مرتا ہے، وکلاء کو ججز کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے، وہ ہڑتال نہ کریں اور ہمارا ساتھ دیں۔

’’ ہمارے پاس قانون سازی کااختیار نہیں ہے‘‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس قانون سازی کااختیار نہیں ہے، جس کے پاس قانون سازی کااختیار ہے وہ نہیں کرتے، ان  کے پاس قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کا وقت نہیں، بنیادی حقوق کاحل ہماری اولین ترجیح ہے، جولوگ بدلنے کی کوشش نہیں کرتے ان کی حالت نہیں بدل سکتی، ہمیں مل جل کر کوششیں کرنی ہیں، نظام عدل میں خامیاں ہیں اسے دور کرنے کے لیے میرا ساتھ دیں۔

 دوسری جانب  سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سجادعلی شاہ اورجسٹس منصورعلی  پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے بلوچستان میں تعلیم، صحت اور پانی کی صورتحال سےمتعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالتی حکم کے باوجود سابق وزرائے اعلیٰ عبدالمالک بلوچ اور نواز ثنا اللہ زہری پیش نہیں ہوئے، عبدالمالک بلوچ کی جانب سے ان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان سے پانی کے معاملے پر رپورٹ سے متعلق استفسار کیا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل رؤف عطا نے کہا کہ کابینہ اجلاس ہواہے، ایک ہفتے میں رپورٹ مکمل کرلی جائے گی۔ چیف جسٹس نے  حکم دیا کہ پالیسی تیار کرکے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے۔

’’بلوچستان میں ڈاکٹرز کی تنخوا ہ 24 جب کہ ڈرائیور کی 35 ہزار ہے ‘‘

ینگ ڈاکٹرز کے مسائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ  ڈاکٹرز کو تنخواہ ادا نہیں کی گئی، کل مشکل سے ہڑتال ختم کرائی، جس پر سیکرٹری صحت صالح ناصر نے کہا کہ ہاؤس جاب کرنےوالوں کو ہر دو ماہ بعد وظیفہ دیا جاتا ہے، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا ڈرائیور 35 ہزار تنخواہ لے رہا ہے اور آپ ڈاکٹرزکو24ہزارروپےتنخواہ دیتے ہیں، جب تک ڈاکٹرزکی تنخواہ ادانہیں ہوتی،آپ کی تنخواہ بند ہے۔

’’سول اسپتال میں ایک بھی ایم آرآئی مشین نہیں ہے‘‘

چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، آپ نے اسپتالوں کی حالت دیکھی ہے؟ سول اسپتال میں ایک بھی ایم آرآئی مشین نہیں ہے، اسپتالوں میں آلات بہتررکھیں اوران کی حالت بہتربنائیں۔ وزیراعلیٰ کوبتائیں ان کےجائزمطالبات تسلیم کریں ورنہ ہمیں کچھ تو کرنا ہوگا۔

دوران سماعت صوبائی سیکرٹری تعلیم نزیر آغا ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کے زیر انتظام ایک ہزار135پرائمری اسکول ہیں، صوبے کے 50  فیصد پرائمری اسکولوں میں پانی نہیں، یہی شرح مڈل اورہائی اسکولوں میں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی حکومت گورننس میں ناکام ہے، میں تو سمجھتا تھا سندھ کی صورتحال ابتر ہے لیکن یہاں تو کوئی حالت ہی نہیں، بلوچستان میں تعیلم کی صورتحال سندھ سے بھی بدتر ہے۔