Home / News / Increase in incremental increase in salaries and pensions in 4 years

Increase in incremental increase in salaries and pensions in 4 years

سٹیٹ بینک پالیسی ریٹ، ملکی صنعتوں و تجارت کیلئے بینکنگ سیکٹر سے دئیے جانیوالے قرضوں پرسود کی شرح بھی یقینی بڑھے گی۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کی قوت خرید پر منفی اثرات مرتب، قرضوں کا اضافی بوجھ بھی پڑیگا، حکومت کونئے ٹیکس لگا نا پڑینگے۔

اسلام آباد: (دنیا نیوز) امریکا کی جانب سے پاکستان کی 1.115 ارب ڈالر یا 127 ارب روپے کی دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے اخراجات کی واپسی سے یکسر انکار اور پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیوں کے سبب امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر پر دباﺅ برقرار ہے۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں موجودہ حکومت کے دور میں تقریباً 13 روپے کی کمی نے گزشتہ سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کئے گئے اضافہ کے اثرات کو زیرو کر دیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے پاکستانی عوام کی قوت خرید پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ افراط زر کی شرح میں اضافہ کے سبب سٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں اضافہ اور ملکی صنعتوں اور تجارت کیلئے بینکنگ سیکٹر سے دئیے جانے والے قرضوں پر سود کی شرح بڑھنا بھی یقینی ہے۔

وزارت تجارت کے حکام کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کے سبب پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہو گا جبکہ ملکی درآمدات مہنگی ہونے کے سبب اس میں کمی ہو گی۔ تجارتی خسارے میں اربوں ڈالر کی کمی کی توقع ہے۔ روپے کی قدر میں مزید کمی کے سبب پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، ایل پی جی گیس، ایل این جی گیس، درآمدی خوردنی تیل جس سے گھی اور کوکنگ آئل بنایا جاتا ہے۔ چائے، سونا، چاندی، تانبہ، سٹیل مصنوعات، ہمسایہ ممالک سے درآمد ہونے والی سبزیاں، پھل، خشک میوہ جات، خشک دودھ اور پاکستان کے اندر درآمدی خام مال سے تیار ہونے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی برانڈڈ اشیا جن میں کھانے پینے کی اشیا، مشروبات حتیٰ کہ سینکڑوں درآمدی اشیا اور درآمدی مال سے تیار ہونے والی پاکستانی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

ادھر تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود گزشتہ دو ماہ کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں چھ روپے کی کمی ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق درآمد کنندگان روپے کی قدر میں مز ید کمی کے خدشے کے پیش نظر آئندہ مہینوں میں کی جانے والی درآمدات کیلئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) ابھی سے کھولنے شروع کر دیں گے جس کے سبب اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں روپے کی قدر پر مزید دباﺅ بڑھ جائے گا جو روپے کی قدر میں مزید کمی کا سبب بن سکتا ہے۔

دوسری جانب وہ برآمد کنندگان جنہوں نے برآمدات کر لی ہیں، وہ بیرون ملک سے زرمبادلہ پاکستان لانے میں مزید تاخیر کریں گے تا کہ ان کو پاکستانی روپے میں زیادہ رقم مل سکے۔ زرمبادلہ کی پاکستان لانے میں تاخیر سے حکومتی ضروریات بڑھنے سے بھی روپے کی قدر پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 107 روپے سے 113 روپے تک پہنچنے کے سبب پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی مزید مہنگی ہو جائے گی اور ہر ایک امریکی ڈالر کے قرض کے مقابلے میں پاکستان کو 107 روپے کے بجائے 113 روپے ادا کر نا پڑیں گے جس کیلئے حکومت کو نئے ٹیکس لگا کر اضافی مالی وسائل کا بندوبست کرنا ہو گا تا کہ قرضوں کی ادائیگی کی جا سکے یا نئے نوٹ چھاپ کر ملکی ضروریات پوری کی جا سکیں۔

پاکستان کے اندر سیاسی عدم استحکام اور حکومت کی سیاسی مشکلات کے سبب روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا دینے کے اقدامات دکھائی نہیں دے رہے۔ حکومت کی دو رکنی معاشی ٹیم جس نے حال ہی میں چارج سنبھالا ہے، ابھی تک اس گھمبیر صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔